سیف سٹی پراجیکٹ کے دعوے دھر ے کے دھرے رہ گئے
کراچی میں سیف سٹی پراجیکٹ کے دعوے دھر ے کے دھرے رہ گئے ، شہر کے حساس ترین علاقے میں صحافی پر ہونے والے قاتلانہ حملے72 گھنٹے سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ملزمان کا سراغ تو دور کی بات تاحال ملزم کی کوئی بھی سی سی ٹی فوٹیج حاصل نہیں کرسکی ۔ جس نے سیف سٹی پراجیکٹ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھا دئیے ۔ بدھ کی شب سینئر صحافی ندیم احمد پرپوش علاقے میں ہونےوالے قاتلانہ حملے نے پولیس ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کراچی سیف سٹی پراجیکٹ کی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان اٹھا دئیے ، شہر میں جاری دفاعی آئیڈیاز کے موقع پر مذکورہ علاقے میں دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود بھی مسلح افراد کا بے خوف گشت بھی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی کی پول کھو ل رہاہے ، دوسری جانب 72 گھنٹوں سے زائد کا وقت گزر جانے کے باوجود بھی کراچی پولیس کی جانب سے حملہ آور کا سراغ لگانا تو دور پولیس حملہ آور کی سی سی ٹی فوٹیجز تک حاصل نہیں کرپائی ۔ کچھ روز قبل سندھ پولیس کی جانب سے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو سیف سٹی پراجیکٹ کے حوالے سے بریفنگ دی گئی تھی جس میں منصوبےسے متعلق 300 کھمبوں میں 157 کھمبوں کے نصب کرنے اور 20 کھمبوں کے مکمل طور پر فعال ہونے کے حوالے سے بتایا گیا ، بریفنگ میں 100 نگرانی والے کیمرے سی پی او کنٹرول روم اور SSCAہیڈ کوارٹر کے اہم علاقوں کی فعال طور پر نگرانی سے بھی آگاہ کیا گیا اور مزید بتایا گیا کہ ایکسپو سینٹر ،شاہراہ فیصل ، ائیر پورٹ اور سوک سینٹر جیسے اسٹریٹجک علاقوں نگرانی کو فعال کردیا گیا ہے ۔ آئی جی سندھ نے سیف سٹی پراجیکٹ کی ترقی کا دعویٰ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ شہر بھر میں مجموعی طور پر 35000 ہزار کیمرے نصب کردئیے گئے ہیں علاقے اب بہتر نگرانی میں ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس افسران کی جانب سے تاحال سی سی ٹی فوٹیجز حاصل نہ کرنے پر پولیس کے اعلیٰ افسران نے اظہار برہمی کا اظہار کیا ہے ، اعلیٰ افسران کی جانب سے اظہار برہمی کرتے ہوئے ماتحت افسران کو کہا گیا ہے کہ صحافی کے بجائے کوئی اعلیٰ شخصیت ہوتی تو ہم کہاں کھڑے ہوتے