سی ویو پر گہرے پانی سے سندھ پولیس کی ڈوبی گاڑی برآمد، واقعہ معمہ بن گیا
کراچی() سی ویو پر گہرے پانی سے سندھ پولیس کی ڈوبی گاڑی برآمد، واقعہ معمہ بن گیا چار لڑکے تھے جو مبینہ طور پر نشے میں تھے، وہ مستی میں اس کار کو پانی میں لے گئے تھے،پولیس نے اطلاع ملتے ہی گاڑی برآمد کرلی’ لگی نمبر پلیٹ جعلی نکلی پولیس نے ایک اور کارروائی کے دوران ایک گھر سے ایک اور سرکاری نمبر لگی گاڑی برآمد کرلی واقعے کی تحقیقات جاری ہے۔ تفصیلات کے مطابق سندھ پولیس کے نمبر کی گاڑی رات سے سی ویو پر ڈوبی ہوئی تھی، اور شام ہونے سے قبل دو تین گھنٹے کی جدوجہد کے بعد ریسکیو 1122 کے رضاکاروں نے ہیوی مشینری کے ذریعے نکالی۔بتایا جا رہا ہے کہ چار لڑکے تھے جو مبینہ طور پر نشے میں تھے، وہ مستی میں اس کار کو پانی میں لے گئے تھے۔ریسکیو کے مطابق رات کو اندھیرے کی وجہ سے آپریشن نہیں کیا جا سکا تھا، جس پر گاڑی صبح نکالی گئی، گاڑی پر ایس پی 286 اے کی نیلی نمبر پلیٹ لگی ہوئی ہے، جب کہ کار حادثے میں کسی شخص کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ضلع جنوبی پولیس کے مطابق اطلاع ملنے پر درخشاں پولیس نے گاڑی کو تلاش کیا اور ایک مقام سے گاڑی کو برآمد کی ابتدائی طورپرکراچی میں تعینات ایک ایس ایس پی کے کزن کی حیثیت سے مذکورہ شخص شناخت کراتا رہا بعد ازاں معاملہ من گھڑت نکلا کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے خلجی فیملی کے استعمال میں دو گاڑیاں ہیں جن پر پولیس کی نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی۔صورتحال پر اعلیٰ پولیس افسران نے بھی نوٹس لیا۔ جس کے بعد معاملے کی تحقیقات ہوئی۔کار پر سندھ پولیس کی لگائی ہوئی نمبر پلیٹ جعلی نکلی’اصل نمبر پلیٹ ایک اعلی افسر کے اسٹاف افسر کے نام پر الاٹ ہے۔ساؤتھ پولیس نے گاڑی کو ڈیفنس کے علاقے سے برآمد کیا۔جعلی نمبر پلیٹ لگانے والے افراد کوئٹہ کے رہائشی ہیںپولیس کے پہنچنے پر بتایا گیا کہ ایس ایس پی کا بھتیجا ہوں۔پھر کہا گیا کہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر جعلی نمبر پلیٹ لگائی ہے۔کراچی میں تعینات ایس ایس پی ویسٹ طارق الٰہی مستوئی پولیس کی جانب سے معلوم کیا گیا تو پتہ چلا معاملہ جھوٹا ہے۔کار برآمد کرنے کے بعد پولیس کی جانب سے مقدمہ درخشاں پولیس اسٹےشن میں درج کرلیاگیا۔ایس ایچ او درخشاں نے ایک ملزم کو گرفتار کرلیاہے۔کار تھانے منتقل کرنے کے لیے لفٹر کابھی استعمال کیاگیا۔ایس ایس پی ساؤتھ مہزور علی کے مطابق ایس ایچ او درخشاں نے بروقت کارروائی کی ہے پولیس کی جعلی نمبر پلیٹ لگاکر گاڑیاں استعمال کرنے والوں کے خلاف آڑے ہاتھوں نمٹا جارہاہے۔