شہر میں قاتل ٹریفک نے حادثات میں رواں سال کے 36 دنوں میں 82 افراد کی جان لے لی
کراچی کے مختلف علاقوں میں سال نو کے 36روز کے دوران ہیوی گاڑیوں کی ٹکر اور مختلف ٹریفک حادثات میں 82شہری جاں بحق اور12سو زائدشہری زخمی ہوگئے ،جاں بحق ہونے والے شہریوں میں معصوم بچے ، بچیاں کم عمر لڑکے اور خواتین بھی شامل ہیں ۔ شہر میں حادثات میں اضافے کا سبب شہر میں دندناتی ہیوی ٹریفک ، ٹرالر ،ڈمپر، واٹر اور آئل ٹینکر ، شہر کی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں قرار دی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب شہر کی سڑکوں پر تعینات ٹریفک پولیس اہلکار و افسران کی سرعام مبینہ رشوت خوری بھی شہر کی سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں اضافے کاسبب بتائی جاتی ہے ۔ شہر میں ٹریفک کی روانی اور قوانین پر عمل در آمد کروانے کے لئے تعینات ٹریفک پولیس کے افسران و اہلکار شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے بجائے مال کماؤ مہم میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں ، شہر میں تعینات ٹریفک پولیس کے افسران حکومت اور اعلیٰ افسران کی جانب سے دئیے گئے احکامات کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیتے ہیں ، شہر میں جگہ جگہ ٹریفک پولیس افسران کی جانب سے ناکے لگا کر شہریوں سے لوٹ مار کاسلسلہ جاری و ساری ہے ، ٹریفک پولیس افسران و اہلکار شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے بجائے مال کماؤ مہم میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں ۔ ٹریفک پولیس اہلکاروں اور افسرن کی جانب سے شہر کے اہم مقامات پرعلاقے کی پولیس کے ساتھ ملکر ناکے لگائے جاتے ہیں جہاں شہریوں کو بھاری جرمانوں اور حوالات میں بند کرنے سمیت مقدمات میں بند کرنے کی دھمکیاں دے کر شہریوں سے زیادہ سے زیادہ رشوت وصول کرکے شہریوں کو کم سے کم چالان تھماکر سرکاری خزانے کا پیٹ بھی بھر دیا جاتا ہے ۔ شہر کی اہم تجارتی مقامات کے اطراف میں ٹریفک جام رہنا بھی معمول بنا ہوا ہے جبکہ سرکار ی و نجی اسپتالوں اور اہم مارکیٹوں کے باہر ٹریفک پولیس افسرا ن و اہلکاروں کی سرپرستی میں پارکنگ مافیا نے شہریوں سے لوٹ مار کا بازار گرم کررکھا ہے ۔ جہاں شہریوں سےموٹر سائیکل پارکنگ کے نام پر 50 روپے اور کار پارکنگ کے نام پر 200 روپے تک وصول کئے جاتے ہیں ۔ شہر میں قائم کئے گئے غیر قانونی بس اڈے ، کار اسٹینڈز، چنگچی اور رکشہ اسٹینڈز بھی شہر میں ٹریفک جام کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ شہر کی اہم شاہراہوں پر سفر کرنا شہریوں کے لئے کسی عذاب سے کم نہیں ہے ۔ شہر کی سڑکوں پر ٹریفک جام رہنا معمول بن گیا ہے ، منٹوں کا سفر شہری گھنٹوں میں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جبکہ دن کے اوقات میں بھی شہر کی شاہراہوں پر ہیوی گاڑیاں نظر آتی ہے ، شہر میں ہیوی گاڑیوں کے داخلے کے اوقات کار سے متعلق ٹریفک پولیس کی جانب سے شہر کی سڑکوں پر بینر ز آویزاں کرکے جان بخشی کرالی گئی ہے ، شہر میں ہیوی گاڑیوں کے داخلے کے اوقات پر عملدر آمد بھی ایک خواب بن کر رہ گیا ہے ۔ ٹریفک پولیس کی مبینہ رشوت خوری کے سبب لیاری کی اہم شاہراہ مر زا آدم خان روڈ پی ون بس اسٹاپ سے لے کر دھوبی گھاٹ تک ہیوی گاڑیوں اورکوسٹرز کے لئے پارکنگ ایریا بنادیا گیا ہے جبکہ ماڑی پورروڈ آئی سی آئی سے گلبائی تک رات کے اوقات میں ہیوی ٹرالر کے لئے پارکنگ ایریا بنا دیا گیا ہے ، جہاں رات کے اوقات میں ہیوی گاڑیوں کی پارکنگ کے سبب روڈ پر جگہ کم ہونے سے حادثات رونماء ہوتے ہیں ۔ شہر یوں کا سڑکوں پر ہیوی ٹریفک کی موجودگی میں موٹر سائیکل پر خواتین اور بچوں کے ساتھ سفر کرنا بھی ایک امتحان بن گیا ہے ۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال 2024 دسمبر کے مہینے میںجمالی پل کے قریب تیز رفتار ڈمپر نے موٹر سائیکل سوار ماہر تعلیم پروفیسر طارق صلاح اور انکی اہلیہ کو کچل دیا تھا ، مذکورہ واقعے کے بعد وزیر اعلیٰ سندھ نے آئی جی سندھ اور پولیس افسران کو ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لئے سخت ترین احکامات جاری کئے گئے جس کے بعد ٹریفک پولیس کی جانب سے شہر کی شاہراہوں اور چوکوں پر ہیوی ٹریفک کے اوقات کار اور ٹریفک قوانین پر عملدر آمد و آگاہی مہم کے لئے بینر ز آویزاں کئے گئے تھے تاہم کراچی ٹریفک پولیس شہر میں ہیوی ٹریفک کے اوقات کار پر پابندی اور قوانین پر عملدر آمد کروانے میں مکمل ناکام نظر آئی ،اعداد و شمار کے مطابق سال نو کے آغاز پر پہلے ہی مہینے میں شہر کے مختلف علاقوں میں ٹرالر، ٹینکر ، ڈمپر ، ٹرک ، مسافر بس اور ٹریکٹر نے 23 افراد کو کچل دیا جس میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔ جبکہ مختلف ٹریفک حادثات میں 68 افراد جاں بحق اور 1040 افراد زخمی ہوچکے ہیں ۔ علاوہ ازیں یکم فروری سے پانچ فروری کے دوران خواتین اور بچوں سمیت 14افرادجان سے گئے جبکہ 200سے زائد افراد زخمی ہوئے، مذکورہ اعداد و شمار سے بخوبی ٹریفک پولیس کارگردگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جبکہ رینج پولیس بمشکل صرف چار سے پانچ افراد کو گرفتار کرسکے ہیں۔