مصطفی اغوا کیس میں اہم پیشرفت مغوی کی سوختہ لاش حب سے برامد
ڈیفنس سے سوا ماہ قبل اغوا ہونے والے مغوی نوجوان کی لاش حب سے مل گئی۔ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نے جمعہ کو اپنے دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ مغوی مصطفیٰ عامر کے اغوا کے کیس میں ڈیفنس میں مقابلہ ہوا تھا جس میں ملزم گرفتار ہوا تھا۔ اس کیس میں ڈس انفارمیشن بہت پھیلی ہے ہم کیس کے حقائق بتائیں گے۔انہوں نے بتایا کہ 6 جنوری کو مصطفی عامر لاپتہ ہوا اور سات جنوری کو مقدمہ ہوا۔ساؤتھ پولیس نے کیس کو حل کرنے کی کوشش کی ۔کیس میں مغوی کی والدہ کو تاوان کی کال موصول ہوئی تھی جس کے بعد سی آئی اے نے کیس پر کام شروع کیا۔گزشتہ دنوں ڈی ایچ اے میں پولیس مقابلہ ہوا تھا جس میں ڈی ایس پی احسن ذوالفقار اور کانسٹیبل زخمی ہوئے تھے۔وہاں ملزم سے اہم سراغ مغوی کا موبائل فون مل گیا تھا۔جائے وقوعہ سے خون کے نشانات بھی ملے تھے ۔انہوں نے بتایا کہ سی پی ایل سی اور وفاقی ادارے کی مدد سے شیراز بخری عرف شاہویز کو گرفتار کیا گیا۔ملزم شیراز نے پوری واردات کا اعتراف کیا اور قتل کا بھی بتایا کہ مغوی کا قتل کیسے کیا گیا اور لاش کو کیسے ٹھکانے لگایا گیا۔ ڈی آئی جی سی آئی اے نے بتایا کہ جس دن مصطفی غائب ہوا اس دن وہ ارمغان کے گھر گیا تھا جہاں ان کا جھگڑا ہوا تھا۔ مصطفیٰ کو قتل کرنے کے بعد ملزمان نے اس کو حب کے علاقے میں لے جاکر گاڑی میں رکھ کر جلا دیا تھا۔حب پولیس کو نامعلوم لاش اور جلی ہوئی گاڑی کا مقدمہ درج تھا۔لاش کی تدفین حب پولیس نے ایدھی قبرستان میں کی۔انہوں نے بتایا کہ ارمغان اور شیراز قریبی دوست ہیں جبکہ مصطفیٰ بھی ان کا دوست تھا۔6 جنوری کی رات کو مصطفیٰ کو ارمغان نے فون کرکے بلایا تھا، دونوں کی لڑائی ہوئی تھی جہاں اس کو قتل کیا گیا اور ملزمان گاڑی کی ڈگی میں اس کو ڈال کر حب لے گئے۔ڈی آئی جی سی آئی اے نے بتایا کہ ڈیفنس میں چھاپے کے دوران گرفتار ہونے والے ملزم ارمغان کے ملازمین کو حراست میں لیا گیا تھا جنہوں نے بتایا کہ 6 کو مصطفیٰ ارمغان کے گھر آیا وہاں دونوں میں جھگڑا ہوا جس کے بعد اسے فائرنگ کر کے قتل کیا گیا ۔انہوں نے بتایا کہ گاڑی سمیت مصٹطفی کو حب کے علاقے میں ٹھکانے لگایا گیا اور گاڑی سمیت لاش کو جلا دیا گیا۔اگلے روز دوپہر تک ملزمان واپس کراچی آئے تھے۔پولیس نے راستے سے بھی شواہد اکٹھا کیے ہیں۔دوہراجی تھانہ حب میں اس لاش اور گاڑی ملنے کا مقدمہ ہوا ہے۔ڈی این اے کے ذریعے مزید تصدیق کی جائے گی جبکہ ارمغان کا مزید ریمانڈ بھی حاصل کیا جائے گا۔انہوں نے مزید بتایا کہ کراچی سے حب تک کی مختلف مقامات کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور جہاں ملزمان رکے وہاں لوگوں کے بیانات لئے گئے ہیں۔ارمغان اور شیراز اسکول کے دوست ہیں۔ارمغان نے مصطفی عامر کو بلایا تھا۔گھر میں جھگڑے کے دوران مصطفیٰ کو قتل کر کے اسکی گاڑی میں لاش رکھ کر لے جائی گئی۔ارمغان کے پاس سے 64 لیپ ٹاپ ملے ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ وہ کال سینٹر چلاتا تھا اور ڈیجیٹل کرنسی کا کام بھی کرتا تھا۔انہوں نے بتایا کہ ملزم نے جیسا بتایا تھا ویسے ہی گاڑی سمیت لاش ملی تھی جسے حب پولیس نے کنفرم کیا ہے۔انہوں نے بتایا کہ عدالت نے ریمانڈ نہیں دیا ان کا اپنا فیصلہ ہے ۔ہم نے مصطفیٰ کی والدہ کے ڈی این اے نمونے لیے ہیں ۔لاش کے نمونے بھی لیں گے۔مقتول کی شناخت کے بعد کارروائی آگے بڑھے گی۔