مصطفی قتل کیس میں ارمغان نے اعتراف جرم کر لیا ۔۔

ملزم نے گرفتار ملزم کے بیان کی تصدیق کی تاہم بار بار اپنے بیان سے مکر رہا ہے

0

ڈیفنس میں اغوا کے بعد قتل کیے جانے والے مصطفی عامر کا مرکزی ملزم ارمغان نے پولیس کی جاری تفتیش میں مصطفی عامر کے قتل کا اعتراف کرلیا ،ملزم ارمغان نے گرفتار کیے جانے والے دوست سید شیرازحسین عرف شاہ وزیز کی پولیس کی جانب سے مرتب کردہ انٹروگیشن رپورٹ کو درست قرار دیا ہے کہ جو شیراز نے کہا وہ درست ہے ، مصطفیٰ عامر کے قتل کیس میں ملزم نے انٹیروگیشن میں کیا انکشاف کیا تھا اس رپورٹ کے مطابق ارمغان میرا بچپن کا دوست اور ایک ساتھ اسکول میں پڑھتے تھے ، ڈٰیڑھ سال قبل ارمغان میرے گھرآیا، اس کے پاس نئی گاڑیاں تھیں جو کافی امیر ہوگیا تھا۔رپورٹ کے مطابق ملزم نے کہا کہ میں نے اس سے دوبارہ دوستی کرلی ، اس کے بعد میرا ارمغان کے گھرآنا جانا شروع ہو گیا، مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ بنگلہ اس کا اپنا ہے یا کرایہ کا ہے،نیشن بھی رکھا ہوا تھا اور 3 سے 4 پستول بھی اس کے پاس تھے،ارمغان کا آئے روز فائرنگ کرنا، لڑائی جھگڑا اورمارپیٹ کرنا کام تھا۔ملزم شیرازنے بتایا کہ میرااسٹیٹ کا کام ختم ہو چکا تھا لہذا ارمغان مجھے مالی مدد بھی کرتا اور جب بھی رقم چاہیے ہوتی تو ارمغان مجھے رقم بھی دیتا تھا، ارمغان ویڈ کا نشہ کرتا ہے اور میں بھی ڈیڑھ سال سے اس کے ساتھ ویڈ کا نشہ کررہاہوں۔اس نے کہا کہ مصطفیٰ عامرمیرااورارمغان کا دوست تھا اورمیری ملاقات ارمغان کے پاس ہی اس سے ہوئی تھی اور یہ ویڈ فروخت کرنے کا کام کرتا تھا اورارمغان اسی سے ویڈ خریدتا تھا اور مصطفیٰ کا اکثرارمغان کے بنگلہ پرآنا جانا تھا، مصطفیٰ پہلے اے این ایف کیس میں بھی بند ہوچکا تھا۔ملزم شیراز نے بتایا کہ واقعے سے قبل ایک لڑکی نے سیکس کے دوران ارمغان کو کاٹ لیا تھا ، میں نے تفریح نے ارمغان کو چھیلا ہوا کیلا بھیجا تو ارمغان سمجھ گیا کہ اس لڑکی نے مجھے بتادیا ہے، تاہم ملزم شیرازنے بتایا کہ نیوایئرنائٹ ارمغان نے اپنے بنگلے پرپارٹی رکھی ہوئی تھی جس میں کافی لڑکے لڑکیاں دوست آئی ہوئی تھی، میں بھی رات 12 بجے سے لیکر3 بجےتک پارٹی میں رہا، اس رات پارٹی میں مصطفیٰ نہیں آیا تھا، 5 فروری کی رات مجھے ارمغان کی کال آئی کہ فوری گھرآوٴ۔رپورٹ کے مطابق میں را ت کو10بجے اس کے بنگلے میں اس کے کمرے میں پہنچا تواس کے سامنے ایک لڑکی(انجلینا) موجود تھی جس کے پاوٴں سے خون بہہ رہا تھا جو کہ ارمغان کی مارپیٹ سے زخمی ہوئی تھی، پھرارمغان نے آن لائن رائیڈ بک کی اورلڑکی کواسنائپر کی گولی دکھائی اورکہا کہ اگرکس کو بتایا تویہ گولی تیرے بھیجے میں اتاروں گا، سیدھا اسپتال جاوٴاورعلاج کراوٴ، اسپتال والے پوچھیں تو کہنا کہ کوئی پولیس کارروائی نہیں چاہتی، اسپتال اورگھر والوں کو بتانا کہ نامعلوم افراد نے اسے اور آن لائن کاررائیڈر کے ساتھ مارپیٹ کی ہے۔ ارمغان کے خلاف گزری، درخشاں میں پیسوں، فائرنگ اور دیگرایف آئی آرز درج ہوئیں اور پھر کسٹم کیس میں گرفتار ہوا تواس نے کال سینٹر کا کام بند کردیا تھا اورسیکیورٹی گارڈز بھی ہٹا دیے تھے۔بیان کے مطابق شیر بھی کسی کو دے دیے تھے، ارمغان کا لڑکیوں سے ملنا جھلنا تھا اوراسے اسلحہ رکھنے کا بھی شوق تھا، ارمغان نے 7سے 8 بڑی رائفلیں اوربڑی تعداد میں ایمونیشن تھا،ملزم شیراز نے دوران تفتیش بتایا کہ مصطفیٰ کی والدہ کو تاوان کی کال اورانٹرنیشنل نمبر سے آئے میسیج ارمغان نے کیے یا کسی اورنے مجھے علم نہیں، مجھے پولیس نے 14 فروری کو کورنگی روڈ ڈی ایچ اے سے گرفتارکیا۔اس نے بتایا کہ میں پہلی دفعہ گرفتار ہوا ہوں، اس واقعے سے پہلے میرے اوپر کوئی مقدمہ نہیں ہے، ارمغان کے ساتھ ملکریہ کام کیا، مصطفیٰ کی لاش اس ہی کی گاڑی کی ڈگی میں ڈال کربلوچستان کے علاقے لے گئے، وہاں گاڑی اورلاش کو جلادیا، ارمغان کے بنگلے پر مارپیٹ سے مصطفیٰ کا خون نکلا،جسےارمغان نے اپنے ملازمین سے صاف کروایا تھا۔ارمغان نے بنگلے میں شیر کے بچے بھی پالے ہوئے تھے، کچھ عرصےقبل ارمغان نے شیرکے بچے فروخت کردیئے تھے۔مذکورہ بنگلے کے علاوہ اس سے پہلےاس کی رہائش کہاں تھی اس کے علم میں نہیں، ارمغان اس بنگلے میں اکیلا رہتا تھا اورارمغان بنگلے میں کال سینٹر کا کام کرتا تھا اورکال سینٹر میں 30 سے 35 افراد بھی اس کے پاس کام کرنے کے لیے آئے تھے۔رپورٹ کے مطابق ارمغان نے بنگلے میں 30 سے 35 سیکیورٹی گارڈ رکھے ہوئے تھے،پولیس حکام کے مطابق پولیس نے جب عدالت سے رجوع کرکے ملزم ارمغان کو دوبارہ اپنی کسٹڈی میں لیکر تفتیش کی تو اس نے شیراز کی تمام باتوں کی تصدیق کی اس ہی طرح ہوا تھا اور ہم نے قتل کردیا لیکن ملزم اپنےاس بیان سے بار بار مکر تا رہا اور اپنی طبیعت خراب کرنے کے ڈرامہ کررہا ہے ملزم نشے کاعادی اوروہ نشہ نہ ملنے پر جو حالت ہوتی ہے اس طرح کے ڈرامے کررہا ہے ، پولیس کے مطابق ملزم ارمغان مارشہ نامی لڑکی کو پہنچانے سے انکار کردیا کہ میرا اس سے کوئی چکر نہیں تھا میرے کال سینٹر میں جو کام کرتی تھی وہ انجلینا نامی لڑکی تھی اورجب اسکو مارا پیٹا تھا اس کو خون کارپیٹ پر لگ گیا تھا لیکن وہ اس کے بعد غائب ہوگئی پولیس کو شبہ ہے کہ انجلینا کوڈ نام ہے اس کا اصل نام کچھ اور ہے۔

 

Leave A Reply

Your email address will not be published.