پاکستان کے بڑے شہروں میں زومبی ڈرگ کا پھیلاؤ: نوجوان نسل خطرناک کیمیکل نشے کی لپیٹ میں
کیمکل سے تیار منشیات نے نوجوانوں کو درندگی کی انتہا پرپہنچادیا ہے
لاطینی امریکہ اور یورپ کے بعد پاکستان کے چار بڑے شہروں میں دنیا کی سب سے خطرناک منشیات زومبئی ڈرگ ، جنگل بوائے ،ویڈ اور مشروم نے اپنا تسلط جمالیا ہے اور منشیات سے جڑے بڑے اسمگلروں نے اب دیگر نشوں کے ساتھ ساتھ ان خطرناک ترین منشیات کی اسمگلنگ بھی شروع کر رکھی ہے جس کی وجہ سے کراچی ، لاہور ، اسلام آباد اور پشاور میں یہ خطرناک نشہ پہنچنا شروع ہو گیا ہے ، منشیات کے کاروبار کی روک تھام پرمامور ادارے میں موجود زرائع کا کہنا ہے کہ اان منشیات کو پارٹی ڈرگ بھی کہا جاتا ہے ، اور یہ لاطینی امریکہ کے ملک برازیل میں پہلی بار بنائی گئی تھیں ، جس کے بعد اس نے امریکہ میں بہت بڑے پیمانے پر تباہی مچائی تھی ، کراچی میں ان منشیات کے ایک ڈوز کی قیمت 10ہزار روپے سے لے کر 20ہزار روپے تک ہے ، جو کہ زیادہ تر کراچی کے پوش علاقوں میں سپلائی کیا جا رہا ہے اور اس کے عادی وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہو رہے ہیں جو رات دیر تک پارٹیوں میں جانا پسند کرتے ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ ملک کے کئی تعلیمی ادارے بھی ان منشیات کی فروخت کی منڈیوں کے طور پر سامنے آئے ہیں جس پر اب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نظر رکھنا شروع کر دی ہے ،
ان تمام منشیات کو استعمال کرنے والا شخص اپنے آپ کو ایک غیر مرئی مخلوق تصور کرنے لگتا ہے اور ہر وہ حرکت کر گزرتا ہے جو ایک ہوش و حواس رکھنے والا شخص سوچ بھی نا سکے ، ماضی میں بحریہ ٹائون میں بیٹے کے ہاتھوں قتل ہونے والی ماں اور اس کے نوکر کے واقعے میں بھی پولیس زرائع کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں زومبی ڈرگ کا کردار شامل ہے ، مگر پولیس کی تفتیش میں مزکورہ واقعے کے ملزم کو نفسیاتی مریض ظاہر کیا گیا تھا جس کی اہم وجہ بحریہ ٹائون کا مالک ملک ریاض ہے ، کیونکہ واقعے سے ایک روز قبل نائٹ پارٹی بحریہ ٹائون میں ہی ہوئی تھی جہاں قتل کی واردات میں ملوث ملزم نے زومبی ڈرگ کا نشہ کیا تھا ،اپنے پروجیکٹ کی ساکھ کو بچانے کے لئے اس معاملے میں بحریہ ٹائون انتظامیہ بھی کود پڑی تھی جس کے بعد اس معاملے کو ایک نفسیاتی مریض کی جانب سے دورہ پڑنے پر قتل کئے جانے کا واقعہ قرار دیا گیا تھا ،
واضع رہے کہ مصطفی عامر قتل کیس میں گرفتار ملزم ارمغان کے معاملے میں بھی جھگڑے کی وجہ منشیات کی خرید و فروخت سامنے آئی تھی جس میں پولیس نے منشیات کے نیٹورک سے جڑے کئی اہم کرداروں کو حراست میں لیا تھا ،
زرائع کا کہنا ہے کہ ان جدید منشیات کا عادی شخص کسی بھی حد تک جانے کی ہمت رکھتا ہے ، جس میں قتل ، زیادتی جیسے جرائم بھی شامل ہیں ، اور یہ تمام منشیات چرس ، بھنگ اور افیون جیسے پودوں سے نہی بلکہ مختلف کیمیکلز کو ملا کر تیار کی جاتی ہیں ،
پاکستان میں منشیات کے کاروبار سے جڑے اسمگلروں نے ان جدید منشیات کو لاطینی امریکہ سے پاکستان لانے کا فیصلہ کیا اور پھر یہ منشیات ایک محدود مقدار میں سمندر کے راستے پاکستان لائی گئی ،
منشیات کی روک تھام پر مامور ادارے میں تعینات زرائع کا کہنا ہے کہ برازیل کے گھنے جنگلات میں ان منشیات کو تیار کرنے کی سینکڑوں فیکٹریاں کام کر رہی ہیں ، جہاں سے اسنشے کو سمندر کے راستے پہلے اسپین پھر مصر ، سوڈان ، پھر ایتھوپیا، پھر یمن ، اومان اور اس کے بعد وہاں سے ڈائریکٹ پاکستان یا ایران اسمگل کیا جاتا ہے اور یہ سارا کام زیادہ تر سمندری راستوں سے ہو رہا ہے ،
زرائع کا کہنا ہے کہ ان منشیات کو استعمال کرنے کے بعد انسان کا اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا اور وہ انسانیت کے درجے سے گر کر جانوروں والی حرکتیں کرنے لگتا ہے،بالکل کسی درندے کی حرکتیں جو کہ اپنے ارد گرد لوگوں کو ہر قسم کا نقصان پہنچا سکتا ہے یہاں تک کہ ان کی جان بھی لے سکتا ہے،ان منشیات کی صرف ایک ڈوز لینے سے پیدا ہونے والی کچھ علامات درج ذیل ہیں،اس کے لینے کے بعد انسان کا اپنے دل و دماغ پر قابو نہیں رہتا،وہ اپنے آپ کوناقابل تسخیر اور بہت زیادہ طاقتور محسوس کرنے لگتا ہے ،مختلف نوعیت کے وہم کا شکار ہو جاتا ہے ،اس میں ذہنی بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے،عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگتا ہے ،جسم کا درجہ حرارت بہت بڑھ جاتا ہے ،جبکہ اوورڈوز کی صورت میں جسم کے پٹھوں میں کھنچاؤ پیدا ہوتا ہے، پٹھے گھلنے لگتے ہیں، گردن کے پٹھے سر کا بوجھ سنبھالنے کے قابل نہیں رہتے اور گردن ایک طرف ڈھلک جاتی ہے،آنکھیں حلقوں سے باہر آجاتی ہیں،طبیعت میں انتہا درجے کا جنون اور وحشت آجاتی ہے،سامنے آنے والا ہر انسان اپنا دشمن نظر آتا ہے اور اس پر حملہ کرکے چیر پھاڑ یا کاٹنے بھنبھوڑنے کو دل کرتا ہیجس کا نتیجہ ایک کربناک موت ہوتی ہے،
اس اہم معاملے میں منشیات کی روک تھام کے لئے کام کرنے والے ادارےمسلسل کارروائیاں کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی حکمت عملی بھی تبدیل کر رہے ہیں تاکہ جلد از جلد ملک پاکستان سے منشیات کے اسمگلروں کا خاتمہ کیا جا سکے ۔