جے 10 سی عالمی برآمدی منڈی میں ایف 16 کے مقابلے کیلئے تیار ہے، امریکی جریدہ
امریکی جریدے کا کہنا ہے کہ چین کئی شعبوں میں مغرب کو پیچھے چھوڑ رہا ہے، ان شعبوں میں بھی جہاں ہمیشہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ امریکا کو برتری حاصل ہے، جیسا کہ ہتھیاروں کی صنعت میں جے 10 سی اب عالمی برآمدی منڈی میں ایف 16 کے مقابلے کے لیے تیار ہے۔
امریکی جریدے ’نیشنل انٹرسٹ‘ میں شائع رپورٹ کے مطابق چین نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ واقعی امریکا کا ایک قریبی دفاعی حریف ہے، حالیہ 4 روزہ پاک بھارت تنازع میں اس کے ہتھیاروں اور جنگی طیاروں نے مغربی عسکری منصوبہ سازوں اور تجزیہ کاروں کی توقعات سے کہیں بہتر کارکردگی دکھائی۔
خاص طور پر، پی ایل15 ایئر ٹو ایئر میزائل سے لیس چینی جے 10 سی جنگی طیارے نے بھارت کی پاکستان میں ابتدائی پیش قدمی کو مکمل طور پر روک دیا، چند معروف اور مہنگے مغربی دفاعی نظاموں کو شکست دینے کے بعد چین اب جے 10 سی کو امریکی ساختہ ایف 16 کا حقیقی حریف بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
’چین کا چینگ ڈو جے 10 ایک طاقتور طیارہ‘
حالیہ جنگ میں اس طیارے کی شاندار کارکردگی کے پیش نظر بیجنگ کے پاس یہ حقیقی موقع ہے کہ وہ عالمی ہتھیاروں کی برآمدی منڈی میں امریکی ایف 16 کی بالادست حیثیت کو چیلنج کر سکے، گوکہ ایف 16 اب پرانا ہو چکا ہے لیکن اگر چین ایف 16 کی فروخت میں کمی لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو اس سے امریکا کے دفاعی شعبے کو بھاری نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
مثال کے طور پر، مالی سال 2024 میں رپورٹ کیا گیا کہ امریکا کے مشہور چوتھی جنریشن کے ملٹی رول جنگی طیارے ایف 16 کی فروخت نے اس سال کی ہتھیاروں کی برآمدات میں نمایاں حصہ ڈالا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق نیٹو کے رکن ملک ترکی کو صرف ایف 16 طیاروں کی فروخت کی مالیت 23 ارب ڈالر رہی، اگرچہ امریکہ دیگر دفاعی نظام بھی دنیا بھر میں فروخت کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنگی طیاروں کے حوالے سے امریکی دفاعی صنعت کو کبھی چینی حریفوں سے سنجیدہ خطرہ محسوس نہیں ہوا، ہمیشہ یہی سمجھا جاتا رہا کہ اگرچہ چین کے ہتھیار سستے ہوتے ہیں، مگر امریکی ساختہ نظاموں کو معیار کا اعلیٰ نمونہ تصور کیا جاتا ہے، جو ان کی زیادہ قیمت کا جواز فراہم کرتا ہے۔
اب یہ تصور تبدیل ہو چکا ہے، چین، جو پہلے ہی بڑے پیمانے پر سستی پیداوار کی مہارت رکھتا ہے، اب اعلیٰ معیار اور بڑے پیمانے کی پیداوار کا امتزاج پیش کر رہا ہے، جیسا کہ حالیہ پاک-بھارت تنازع میں دیکھا گیا، جہاں چین نے بڑی تعداد میں دستیاب ایسے نظام پیش کیے جو اپنے مغربی مہنگے حریفوں کا مؤثر مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف ماہرین برسوں سے توجہ دلاتے رہے ہیں کہ چین کی صنعتی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں مغرب کی غیر محتاط معاونت ایک دن انہی کے لیے خطرہ بن جائے گی، چین کا مقصد صرف سستی اشیا کی پیداوار تک محدود نہیں تھا، یہ ترقی کے سفر میں محض ایک ابتدائی قدم تھا۔
آج یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بیجنگ نہ صرف یہ صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اس کی سیاسی و صنعتی خواہش بھی رکھتا ہے کہ وہ جے 10 سی جیسے چوتھی نسل کے جدید ملٹی رول جنگی طیارے بڑی تعداد میں تیار کر کے عالمی سطح پر میدان میں لا سکے۔