سی ٹی ڈی سندھ نے شہریوں کو جعلی سرمایہ کاری کے ذریعے اربوں روپے کا دھوکہ دینے والے دو ملزمان کو گرفتارکرلیا ۔

0

کراچی (اسٹاف رپورٹر ) سی ٹی ڈی سندھ نے شہریوں کو جعلی سرمایہ کاری کے ذریعے اربوں روپے کا دھوکہ دینے والے دو ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے ۔ ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق سی ٹی ڈی کے انٹیلی جنس ونگ نے گلستان جوہر میں بین الصوبائی فراڈ کرنے والے گروہ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے پولیس کو انتہائی مطلوب دو ملزمان کو گرفتار کرلیا ۔ انچارج سی ٹی ڈی راجہ عمر خطاب کے مطابق گرفتار ملزمان شمشاد علی بالادی شمشاد علی بالادی عرف عمران بلوچ عرف عامر علی شاہ اور لکمیر بالادی عرف مختیار وائیو عرف ابرار شاہ شامل ہیں۔ گرفتار ملزمان قومی احتساب بیورو، وفاقی تحقیقاتی ادارے اور پولیس کو سندھ اور پنجاب بھر میں سینکڑوں شہریوں سے اربوں روپے کا فراڈ کرنے میں مطلوب تھے۔ راجہ عمر خطاب نے مزید بتایا کہ گرفتار ملزمان نے شہریوں کو کار لون، ہاؤس لون اور فنانسنگ اسکیموں کی پیشکش کی۔ انہوں نے شہریوں کو کار لون، ہاؤس لون اور فنانسنگ اسکیموں کا لالچ دینے کے لیےSG انٹرپرائز اورفور سیزنز الائنس لمیٹڈ کے نام سے دفاتر قائم کیے تھے۔ ان کے بڑے بھائی نہال بالادی کو سی ٹی ڈی نے 2022 میں گرفتار کیا تھا اور وہ اس وقت لانڈھی جیل میں ہیں۔ یہ انکشاف ہوا کہ نہال جیل میں ہونے کے باوجود عدالتی سماعتوں کے لیے نکلنے کا انتظام کرتا ہے اور پھر گھر چلا جاتا ہے۔ جیل حکام نے مبینہ طور پر اسے موبائل فون اور انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کی ہے اور اسے جیل کے اندر اور باہر ہر طرح کی سہولیات حاصل ہیں۔گرفتار ملزمان میں سے ایک نے ایڈووکیٹ سید اظہر عباس نقوی کا عرف اپنایا تھا۔ سی ٹی ڈی سائبر کرائم یونٹ کو گرفتاریوں کا کام سونپا گیا تھا، اور ملزمان کے خلاف کراچی، ملتان، راولپنڈی اور ایف آئی اے میں مقدمات درج ہیں۔ نیب نے شمشاد بالادی کو اس سے قبل عسکری گروپ آف انوسٹمنٹ میگا فنانشل کیس میں گرفتار کیا تھا، لیکن مجرم ثابت ہونے کے بعد، وہ پلی بارگین کرنے میں کامیاب ہو گئے اور راجہ عمر خطاب کے مطابق، 18 ماہ میں رہا ہو گئے۔وزارت داخلہ نے نیب کی درخواست پر ان کا نام دوبارہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈال دیا۔ ایف آئی اے نے ملزمان کے خلاف 350 ملین روپے کا مقدمہ بھی درج کر لیا۔ اس گینگ میں چھ بھائی اور 17 رشتہ دار اور دوست شامل ہیں جن میں نہال بلادی، نیاز بلادی اور شہمیربالادی جیسے قریبی ساتھی شامل ہیں۔ 12 سے زائد برانچ منیجرز اس فراڈ میں ملوث تھے جن میں سے ہر ایک کی تنخواہ 100,000 روپے تک تھی۔ مشتبہ افراد اپنی اصل شناخت چھپاتے اور نئے دفاتر کھولتےتھے ، متاثرین کو ان کے اصل نام جاننے سے روکتےتھے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ملزمان کے خلاف کراچی، ملتان، راولپنڈی اور ایف آئی اے کے تھانوں میں مقدمات درج ہیں۔ راجہ عمر خطاب کے مطابق گرفتار ملزمان سے مزید تفتیش کے بعد مزید اہم انکشافات متوقع ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.